افسانہ   قاتلوں کےدرمیان     از:۔ایم مبین

 


ہوش میں آنےکےباوجود اُسےاحساس نہیں ہوسکا کہ وہ زندہ بھی ہےیا نہیں ؟
آنکھوں کےسامنےتاریکی چھائی ہوئی تھی اور سارا جسم درد سےبھرا پھوڑا محسوس ہورہا تھا ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسےسارا جسم پٹیوں سےجکڑا ہے۔ آنکھوں پر بھی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں ۔ وہ آنکھیں کھولنےکی کوشش کر رہا تھا لیکن آنکھیں کھولنےمیں کامیاب نہیں ہوپارہا تھا ۔ اکثر ایسا محسوس بھی ہوتا کہ آنکھیں کھل گئیں تو بھی آنکھوں کےسامنےتاریکی چھائی رہتی ۔
یہ تاریکی نہ تو زندگی کی دلیل تھی اور نہ ہی موت کی علامت ! اگر وہ زندہ تھا تو پھر یہ چاروں طرف تاریکی کیوں چھائی ہے؟ اور اگر مرچکا ہےتو اُس کےجسم میں احساس کیوں زندہ ہے؟ اُسےکیوں محسوس ہورہا ہےکہ اُس کا سارا جسم دہکتا ہوا انگارا بنا ہوا ہے۔ اور سارا جسم پٹیوں سےڈھکا ہے۔
اُسےعلم تھا کہ وہ مرچکا ہے۔
اِتنا مار کھانےکےبعد اُس کا زندہ رہنا نا ممکن تھا ۔
چار پانچ سو لوگوں کےمجمع نےاُسےجانوروں کی طرح مارا تھا ۔ اُس پر لاتوں ، گھونسوں سےوار تو کئےتھےساتھ ہی ساتھ اپنےہتھیار بھی آزمائےتھے۔
ترشولوں سےاُس کےجسم کو کئی جگہ چھیدا گیا تھا ۔ خنجر اُس کےجسم میں اُتارےگئےتھے۔ لاٹھی ، ہاکی سےاُس کےسر پر وار کئےگئےتھے۔ اُس کےزمین پر گرنےکےبعد مجمع اُسےاپنےپیروں سےکچل رہا تھا ۔ اِس کےبعد اُس کا زندہ رہنا تو نا ممکن ہی تھا ۔
لیکن پھر بھی !اِس کےجسم میں احساس جاگا تھا ‘ اُس کا ذہن کام کرنےلگا تھا ۔ وہ مرگیا ہوتا ۔ وہ سوچ رہا تھا اور اِس وقت وہ قبر میں ہے‘ یہ قبر کی تاریکی ہےاور اُس کا جسم جو دُکھ رہا ہےیہ منکر نکیر کےگرجو کی مار کی وجہ سےدُکھ رہا ہے، وہ مسلمان ہےاپنےآپ کو وہ نیک مسلمان مانتا ہی نہیں ہے۔ ہفتہ میں ایک بار صرف جمعہ کو نماز پڑھتا تھا ‘ رمضان میں کچھ روزےرکھ لیتا تھا اور کبھی کبھی قرآن کریم کی تلاوت کرلیتا تھا ۔ ہاں اُس کےدل میں ایمان ضرور تھا کہ وہ مسلمان ہےلیکن صرف اِس بنیاد پر اُسےقبر کےعذاب سےنجات مل جائےگی ‘ اِس بات کا یقین تو اُسےبھی نہیں تھا ۔ اس لئےہوش میں آنےکےبعد وہ خود کو قبر میں محسوس کرنےلگا۔ لیکن اِس کےپاس سےجوآوازیں بلند ہورہی تھیں اُسےاِس بات کا احساس دلا رہی تھی کہ وہ قبر میں نہیں ہے۔ چاروں طرف سےلوگوں کی کراہوں ، چیخوں کا شور اُبھر رہا تھا ۔ ” ڈاکٹر صاحب میں مرا ، میرا سارا جسم دُکھ رہا ہے، یہ درد مجھ سےبرداشت نہیں ہورہا ہے، ڈاکٹر صاحب آپ نےمجھےکیوں بچالیا ہے، مجھےبھی مرنےدیتے‘ اب میرا دُنیا میں کوئی بھی نہیں بچا ‘ میں جی کر کیا کروں گا ، کس کےلئےجیوں گا ؟
” ڈاکٹر صاحب ! بیڈ نمبر ٤٣ کےمریض کی حالت بہت خراب ہے ! ڈاکٹر صاحب ! یہ کیا ہورہا ہے‘ لوگ زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا ہیں ، ایک ایک سانس کےلئےلڑ رہےہیں اور آپ اُن پر توجہ دینےکی بجائےنرسوں سےخوش گپیّوں میں لگےہوئےہیں ؟ “ یہ آوازیں قبر سےنہیں اُٹھ سکتی تھیں ۔ حلق میں کانٹےسےپڑےہوئےتھےاور ہنوٹوں پر پپڑیاں جمی تھیں ۔ بڑی مشکل سےاُس نےاپنی گیلی زبان سےہونٹوں کو ‘ تھوڑا سا تھوک نگل کر اپنےحلق کو تر کرنےکی کوشش کی ۔
” مَیں کہاں ہوں ؟ بڑی مشکل سےاُس کےہونٹوں سےتین لفظ نکل پائے۔
” تم اسپتال میں ہو اور پورےچار دِنوں کےبعد تمہیں ہوش آیا ہے۔ “ اُس کےقریب سےایک نسوانی آواز اُبھری۔ اِس ایک آواز کےساتھ ہی طوفانی رفتار سےاُس کےذہن نےسب کچھ سوچ کر سارےحالات کا اندازہ لگا لیا ۔ تو وہ زندہ بچ گیا ہے۔ معجزہ ! اِتنا ہونےکےبعد تو وہ زندہ بچ ہی نہیں سکتا تھا ۔ پھر بھی زندہ بچ گیا ہے‘ یہ معجزہ ہے۔ اور اِس وقت اسپتال میں ہےشاید صحیح وقت پر وہ اسپتال میں پہونچ گیا اِس لئےزندہ ہے۔
” مگر مَیں یہاں کیسےآیا ؟ “
” تُم اِن ہزاروں لوگوں میں سےایک جو شہر کےمختلف اسپتالوں میں اِسی حالت میں آئےتھےاور زندہ بچ گئے۔ تمہارا سارا جسم زخموں سےبھرا ہےچہرےپر بھی گہرےزخم ہیں اِس لئےہم نےتمہارا سارا جسم پٹیوں سےڈھانک دیا ہےاور چہرہ بھی پٹیوں سےباندھ دیا ہے، تمہاری آنکھیں سلامت ہیں یا نہیں یہ تو پٹیاں کھلنےکےبعد ہی معلوم ہوگا ۔ “
” مجھےکچھ دِکھائی نہیں دےرہا ہے، گہری تاریکی ہے۔ کبھی کبھی ہلکی سی سُرخی لہرا جاتی ہےیا پھر ایک دودھیا روشنی ۔ “
” مبارک ہو ‘ اِس کا مطلب ہےتمہاری آنکھیں سلامت ہیں ۔ تمہارےزخم بھی بڑی تیزی سےبھر رہےہیں ۔ بھگوان نےچاہا تو تم بہت جلد اچھےہوجاو

¿گے۔ “
نرس کی بات سن کر اُس کےاندر پھر سےجینےکی ایک نئی آرزو جاگ اُٹھی ‘ وہ مرا نہیں ، وہ زندہ ہی۔ شاید اُس کی آنکھیں بھی سلامت ہیں ، جسم کےزخم بھی اچھےہورہےہیں ۔ وہ بہت جلد اچھا ہوجائےگا ‘ چلنےپھرنےکےقابل ہوجائےگا اور اپنےگھر جاسکےگا ۔
” گھر “ اِس بارےمیں سوچ کر وہ اور اُداس ہوگیا ۔
گھر اب کہاں بچا ہے۔ وہ تو اِس کی آنکھوں کےسامنےجل کر راکھ ہوگیا تھا ۔ گھر کا کوئی بھی فرد بھی تو نہیں بچا تھا ۔ اُس نےاپنی آنکھوں سےاپنےہی گھر کی چتا میں اپنی بیوی بچوں کو جلتےدیکھا تھا ۔ اُس نےآگ میں لپٹی اپنی بیوی کی آخری چیخ اپنےکانوں سےسنی تھی ۔ جلتی آگ سےنکل کر وہ آگ سےباہر آنےکی کوشش کر رہی تھی اور جلتےگھر کےگرد بھیڑ نےجو گھیرا بنا رکھا تھا اُن کےہاتھوں کی لکڑیاں ، ترشول ، بھالےبیوی کو دوبارہ آگ میں دھکیل رہےتھے۔
ماحول میں انسانی جسموں کےجلنےکی سر پھاڑ دینےوالی بدبو تھی ۔ اِس بدبو میں شاید اُس کےبچوں کےجسم کی بدبو بھی شامل تھی ۔ وہ اُس سےزیادہ نہیں دیکھ سکا تھا کیونکہ کسی کی نظر اُس پر پڑی تھی ۔
” ارے ! یہ یہاں کس طرح پہونچ گیا ، یہ کیسےزندہ بچ گیا ؟ مارو اِسےمارو ۔ اُسےدیکھ کر کوئی چیخا تھا اور اُس کےبعد پورا مجمع اُس پر ٹوٹ پڑا تھا ۔
اُسےاپنےگھر والوں اور گھر کےبچنےکی آس تو قطعی نہیں تھی ۔ جو منظر اُس نےاپنی آنکھوں سےدیکھا تھا اُس کےبعد تو اُسےیقین ہورہا تھا کہ پورا محلہ نہیں بچا ہوگا ۔ پورےمحلےمیں نہ تو کوئی گھر باقی بچا ہوگا اور نہ کسی گھر کا کوئی مکیں ۔ وہ زندہ تو بچ گیا یہ معجزہ تھا کیوںنہ وہ گھر سےباہر چلا گیا تھا اگر وہ گھر میں ہوتا تو زندہ جل کر راکھ بن جاتا ۔ ویسےاُسی دن بیوی اُسےباہر جانےسےروک رہی تھی ۔

” گھر سےباہر مت جاو

¿ ۔ ٨٥ لوگوں کو زندہ جلانےکےاحتجاج میں شہر بند ہے‘ بند کےدوران کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ “
” بند ، بند کی طرح ختم ہوجائےگا ۔ دوکانیں وغیرہ بند رہیں گی ، لوگ اِدھر اُدھر بیٹھ کر باتیں کریں گےاور دن گذر جائےگا ۔ لیکن ہماری روزی کا کیا ہوگا ۔ اگر میں کام پر نہیں گیا تو کل ہمارےگھر چولہا نہیں جلےگا ۔ پھر بھی تم فکر مت کرو ‘ اگر مجھےایسا محسوس ہوا کہ خطرہ ہےتو میں واپس گھر آجاو

¿ں گا ۔ “ اور وہ کام کی تلاش میں گھر سےنکل پڑا تھا ۔
ایک دو گھنٹےکےبعد جب اُسےکوئی کام نہیں ملا تو اُسےمحسوس ہوا ‘ اُس نےگھر سےنکل کر غلطی کی ہے۔ پورا شہر بند تھا اور ہزاروں لوگ سڑکوں پر تھے۔ایسےمیں کوئی کام ملنےسےتو رہا ۔ اِس کےبعد اُسےشہر کےآسمان پر کالےکالےدھوئیں کو دیکھ کر اُس کا دل دھڑک اُٹھا ۔ ابھی صورتِ حال کا اُس نےاندازہ نہیں لگایا تھا ۔ جو مناظر اُس نےدیکھےتھےاُن سےوہ ڈر گیا تھا ۔
سینکڑوں کا مجمع ٹولیاں بنا بنا کر سڑکوں پر گشت کر رہا تھا ۔ وہ ہتھیاروں سےلیس تھےجس دوکان کو چاہتےتوڑ کر اُسےنذرِ آتش کردیتے۔ جس کسی آدمی کو چاہتےاُس پر ٹوٹ پڑتےاور ایک لمحہ میں اُسےمار کر جلتی ہوئی آگ میں جھونک دیتے۔
گھر جل رہےتھے۔دوکانیں لوٹی اور جلائی جا رہی تھیں۔ لاشیں گر رہی تھیں لوگ جانیں بچا کر
بھاگ رہےتھی۔ قاتل ان کلا تعاقب کر رہےتھی۔ اور بھاگتےلوگوں کو گھیر کر قتل کر رہےتھی۔ جو مزاحمت کرتےاس کی مزاحمت کا جواب دیتےاور پھر اس کی لاش کےچتھڑےاڑادیتی۔
ایسا لگتا جیسےجنگل راج آگیا تھا۔ ہر فرد وحشی درندہ بن گیا تھا اور ایسی حرکتیں کر رہا تھا جو وحشی درندےبھی نہیں کر سکتےہیں۔ ایسےایسےمناظر سامنےدکھائی دےرہےتھےجو آج تک نہ فلموں ،یا ٹی وی پر دیکھےتھےاور نہ ہی کتابوں میں پڑھےتھے۔
” یا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں یہ حال ہی۔تو میرےمحلےکا کیا حال ہوگا؟ میرےبیوی ، بچےکس حال میں ہوں گے؟ تو ہم پر رحم کر ، انھیں محفوظ رکھ۔“
سوچتا ہوا۔ وہ قاتلوں ، وحشیوں کےدرمیان سےخود کو بچاتا اپنےمحلےکی طرف بھاگا۔
بھیڑ وحشیانہ نعرےلگا رہی تھی ۔
”مارو ۔کاٹو۔کوئی بھی زندہ نہ بچنےپائے۔“
’خون کا بدلہ خون ۔ ان کا نام و نشان زمین سےمٹا ڈالو۔‘
اپنی طاقت بتا دو۔ ایک ایک کےبدلےہزار ہزار کی جان لو۔‘
ان وحشیوں سےبچتا وہ کسی طرح اپنےمحلےمیں آیا تو وہ بھی اس کی آنکھوں کےسامنےوہی منظر تھےجو راستہ بھر وہ دیکھتا ہوا آیا تھا۔
پورےمحلےمیںوہی وحشیوں کا ننگا ناچ چل رہا تھا۔
مجمع میں شامل وہ ایک ایک فرد کو حیرت سےدیکھ رہا تھا۔
اس مجمع کےایک ایک فرد کو وہ اچھی طرح پہچانتا تھا۔
سیاسی ورکر تھی‘سیاسی لیڈر ‘مذہبی رہنما‘کٹّر مذہب پرست‘عام آدمی سبھی تواس مجمع میں شامل تھی۔اور وہ وحشیت بربریت کا ننگا ناچ ناچ رہےتھی۔مظلوم مدد کےلیےپکار رہےتھی۔ لیکن کوئی بھی ان کی مدد کوآگےنہیں بڑھ رہا تھا۔ چپ چاپ کھڑےتماشہ دیکھ رہےتھی۔بربریت کا ایسا تماشہ جسکاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن بڑےاطمینان سےوہ اس بربریت دیکھ رہےتھے۔ایسا لگتا تھا کہ یہ کوئی جانور وحشی درندہ بن گیا ہی۔کسی میں بھی ذرا سی بھی انسانیت باقی نہیں تھی۔
اگر ذرا سی بھی انسانیت باقی ہوتی تو وہ اسکےخلاف احتجاج کرتا ‘وحشیوں کو ایسا کرنےسےروکتا یا کم سےکم ان مناظر کو دیکھ کر اپنی آنکھیں پھیر لیتا۔
اس سےآگےنہ تو وہ کچھ سوچ سکا اور نہ ہی کچھ دیکھ سکا۔
کسی کی نظر اس پر پڑی اور وہ اس کا نام لیکر چیخی۔ اور پھر ان وحشیوں کا پورا مجمع اس پر ٹوٹ پڑا۔اس کےبعدنہ تو کسی کےزندہ رہنےکی توقع کی جاسکتی ہےنہ آس لگائی جاسکتی ہے۔
” نرس ! نوٹیا کا کیا حال ہے۔ “ اُس نےنرس سےپوچھا ۔
” تم اُس محلےمیں رہتےتھے؟ ہےبھگوان ! وہاں تو بہت برا حال ہے، وہاں پر ٠١١ لوگوں کو زندہ جلا یا گیا ہےاور پورا محلہ جلا کر خاک کردیا گیا ہے۔ “
نرس کی باتیں سن کر اُس کی پٹیوں میں چھپی آنکھیں بند ہوگئیں ۔
نرس کی اِس بات سےاُس کی آخری اُمید بھی ٹوٹ گئی تھی ۔ اِس کےبعد اُسےاپنےمحلےاور گھر والوں کےبارےمیں سوچنےکےلئےکچھ بھی نہیں بچا تھا ۔
دس دنوں بعد وہ بستر پر اُٹھ کر بیٹھنےکےقابل ہوگیا ۔
آنکھوں کی پٹیاں کھل گئی تھیں وہ اچھی طرح سب کچھ دیکھ سکتا تھا ۔ اُس کا پورا چہرہ زخموں سےبھرا تھا ، سارا جسم زخموں سےچور تھا لیکن زخم بھرنےلگےتھے۔ صرف جو گہرےزخم تھےاُن میں رُک رُک کر ہلکی ہلکی ٹیس اُٹھتی رہتی تھی ۔
اِس دوران ہزاروں کہانیاں اُس نےسنی تھیں ۔ وہ کہانیاں اُس بربریت سےبھی زیادہ ہولناک تھیں جو اُس نےاپنی آنکھوں سےدیکھی تھی ۔
اسپتال میں اُس کی طرح سینکڑوں افراد تھے۔ ادھ مرے، زندگی کی چاہ میں زندگی سےجنگ کرتے، دل میں جینےکی آرزو لئے‘ یہ درد کو سہنےکی کوشش کرتےلوگ ۔ ہر کسی کی کہانی اُس سےملتی جلتی تھی ۔ ہر کسی نےیا تو اپنا پورا خاندان کھویا تھا یا پھر گھر بار ۔
پولس آکر اُس کا بیان لےگئی تھی ۔ سیاسی لیڈر آکر اُسےتسلیاں دےگئےتھے۔ لیڈر ہر کسی کو تسلیاں دیتےتھے۔ پولس بار بار آکر اُن کےبیان لیتی تھی ۔ وہاں پر کئی پولس والےڈیوٹی پر متعیّن تھے۔ وہ جیسےاُن پر نگرانی رکھ رہےتھے۔
ایک دن اچھی طرح چیک اپ کرنےکےبعد ڈاکٹر نےاُس سےکہا ۔
” اب تم چاہو تو اپنےگھر جاسکتےہو ۔ جو زخم باقی ہیں وہ جلد ہی بھر جائیں گے۔ آٹھ دن میں ایک بار آکر اِن زخموں کی مرہم پٹی کرا لیا کرنا ۔ “

 

ڈاکٹر نےتو کہہ دیا کہ وہ گھر جاسکتا ہےلیکن گھر بچا ہی نہیں ہےتو وہ کون سےگھر جائے۔ اِس سےاچھا ہےکہ وہ یہیں اسپتال میں لاوارثوں کی طرح پڑا رہے۔
لیکن وہ زیادہ دنوں تک وہاں نہیں رہ سکا ۔
ایک دن پولس آکر اُسےاسپتال سےاُٹھا لےگئی اور اُسےحوالات میں ڈال دیا ۔
حوالات کےاِس کمرےمیں وہ پچاس لوگوں کےدرمیان تھا ۔ اِن پچاس لوگوں میں کچھ کی حالت اُس کی سی تھی ، کچھ لوگ اچھی حالت میں تھے۔
” انسپکٹر صاحب ! مجھےیہاں کیوں لایا گیا ‘ مجھےحوالات میں کیوں ڈالا گیا ہے؟ “ وہ چیخا ۔
” دنگا کرنےکےالزام میں تجھےحوالات میں ڈالا گیا ہے۔ تیرےمحلےکےپڑوس کےمحلےکی شانتی بین چال پر تم لوگوں نےحملہ کیا تھا اور چال کو آگ لگا دی تھی اور دس لوگوں کو زندہ جلا دیا تھا ۔ “
” انسپکٹر صاحب ! بھلا مَیں کسی پر حملہ کس طرح کر سکتا ہوں ۔ کس طرح کسی کو زندہ جلا سکتا ہوں؟ خود میرا گھر بار جلا دیا گیا ، میرےبیوی بچوں کو میری آنکھوں کےسامنےزندہ جلا دیا گیا مجھےمار مار کر ادھ مرا کردیا گیا ہے۔ پھر میں یہ بھیانک جرم کیسےکرسکتا ہوں ؟ “ وہ چیخا ۔
” اےکاہےکو چیخ رہا ہے؟ اپنا گلہ پھاڑ پھاڑ کر تُو رات دن بھی چیختا رہےتو بھی تیرےچیخنےکا اُن پر کوئی اثر نہیں ہوگا ‘ ایک بار اُنھوں نےجو الزام لگا دیا ‘ وہ پتھر کی لکیر ہے۔ اب فساد ، لوٹ مار ، قتل و غارت گری کےجرم میں سات آٹھ سال اندر رہ کر عدالت میں خود کو بےگناہ ثابت کر تبھی یہاں سےنکل پائےگا ۔ “
تب اُس کو پتہ چلا کہ اِس کمرےمیں جتنےلوگ ہیں اُن میں سےزیادہ تر لوگ بےگناہ ہیں ‘ اُنھیں شہر کےمختلف علاقوں سےپکڑ کر لا کر اِس حوالات میں ٹھونس دیا گیا ہےاور اُن پروہ الزام لگا دئےگئےہیں ۔
اِس کےبعد تو اُس کےدل میں حوالات سےنکلنےکی کوئی اُمید باقی نہیں رہی ۔ ایک دن کوئی سیاسی لیڈر پولس اسٹیشن آیا ۔ حوالات میں آکر وہ اُن سےملا ۔ اُس نےاُن کی ساری باتیں سنیں اور باہر جاکر پولس پر گرجنےلگا ۔
” یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یہ لٹے، تباہ حال لوگ جو اُس وحشیانہ فساد میں اپنا سب کچھ لٹا چکےہیں اُن کےساتھ جو وحشیانہ سلوک جن فسادیوں نےکیا وہ تو آزاد ہیں پولس نےاُن کےخلاف کوئی کاروائی نہیں کی ۔ اُن مظلوم لوگوں کو فسادی بنادیا گیا ہے۔ میں کل ہی اِس کےبارےمیں پارلمینٹ میں آواز اُٹھاو

¿ں گا اور وزیر داخلہ سےاِس بارےمیں جواب طلب کروں گا ۔ “
اُس کی بات سن کر پولس کےچہرےپر ہوائیاں اُڑنےلگیں ۔
” اگر ایسا ہوا تو جواب دینا مشکل ہوجائےگا ۔ ہم اُن لوگوں پر کیس تو بنا چکےہیں ۔ اُنھیں اِس وقت چھوڑ دیا جائےجب معاملہ ٹھنڈا ہوجائےپھر اُٹھا لیں گیا اور ہمارےسروں سےیہ مصیبت بھی ٹل جائےگی ۔
اور اُنھیں راتوں رات چھوڑ دیا گیا ۔
اب وہ شہرمیں تنہا تھا ۔ بےیار و مدد گار بےامان ۔
نہ تو اُس کا کوئی ساتھی نہ رشتہ دار تھا ‘نہ اُس کےسر پر کوئی چھت تھی ۔
اپنےجلےگھر کی راکھ کو صاف کرکےاُس نےایک کونےمیں اتنی جگہ بنا لی تھی جہاں وہ ریلیف میں ملا کمبل بچھا کر سو سکتا تھا ۔ آنکھ کھلتی تو اُسےاپنےچاروں طرف وہی شناسا چہرےدکھائی دیتےجنھوں نےاُس کےگھر اور اُس کےبیوی بچوں کو جلایا تھا ۔
وہ اُسےدیکھ کر طنزیہ انداز میں مسکراتےتھے۔ وحشیانہ ہنسی ہنستےتھےجن کو سن کر اُس کا دل دہل جاتا تھا ۔ بڑےآرام سےوہ اپنےکام دھندوں میں لگےہوئےتھے۔ اپنی دوکانوں پر بیٹھےقہقہےمار کر باتیں کرتےتھے۔ اپنی پارٹی کےجلسوں اور مذہبی جلسوں میں جوش و خروش سےکرتن بھاشن کرتےتھے۔ وہ ایک ایک چہرےکو اچھی طرح جانتا تھا ۔
اُس نےجلتی ہوئی بیوی کےسینےمیں ترشول مار کر اُسےدوبارہ آگ میں دھکیلا تھا ۔ اُس نےاُس کےجسم پر کئی جگہ ترشول گاڑھےتھے، اُس نےاُس کےسر پر ہاکی ماری تھی ، اُس نےاُس کےجسم پر خنجر مارا تھا ، اُس نےاُس جگہ آگ لگائی تھی ، اُس نےوہ دوکان لوٹی تھی ۔
لیکن وہ سب آزاد تھے۔
پولس اُسےبار بار پولس اسٹیشن طلب کرتی اور پتہ نہیں کن کن کاغذات پر اُس کےدستخط لیتی ۔ دن بھر اُس کا پولس اسٹیشن یا کورٹ میں گذرتا ۔
اور قاتل ، وحشی اپنےاپنےگھروں ، محلوں ، دوکانوں میں رہتے۔ وہ خود کو قاتلوں کےدرمیان گھرا ہوا پاتا ۔ اُس کےچاروں طرف قاتل بکھرےہوئےتھےجو آزاد تھے۔
ایک بار وہ اُن سےبچ گیا لیکن اگر اُنھیں دوبارہ اِس طرح کا موقع ملےتو کیا وہ بچ پائےگا ؟


٭٭٭٭

 


پتہ:۔

ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔٢٠ ٣١٢٤
ضلع تھانہ(مہاراشٹر)

 

 



پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔
421302
ضلع تھانہ (مہاراشٹر)


 

 Contact:-

M.Mubin

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421 302

Dist. Thane ( Maharashtra)

Mobile:-09372436628

Email:-mmubin123@gmail.com