افسا نہ     بےاماں          از:۔ایم مبین



رات دو بجےکےقریب ریلیف کیمپ پرحملہ کرنےکی کوشش کی گئی تھی جس سےکیمپ میں مقیم تمام پناہ گزیں خوف اور سکتےمیں آگئےتھے۔
حملہ آور کتنےاور کون تھے؟کچھ پتا نہیں چلا تھا۔وہ رات کےاندھیرےمیں آئےتھےاور ریلیف کیمپ کےباہر اُنھوں نےاشتعال انگیز نعرےلگائےتھےاور پتھراو

¿ کیا تھا ۔
” جےشری رام ، جےشری رام ! “
” آبادی بڑھانےکےکارخانےبند کرو ، بند کرو ۔ “
” پاکستان پہونچا دیں گے، قبرستان پہونچا دیں گے۔“
کیمپ میں کوئی حفاظتی دستہ تو تعینات نہیں تھا ‘ کبھی کبھار ایک آدھ سپاہی آکر کیمپ میں چکّر لگا جاتا تھا ۔ اس وقت وہ بھی غائب تھا ۔ نعروں کی آواز سےپورےکیمپ میں دہشت پھیل گئی ۔
ہر فرد جاگ گیا ۔
اب آگےکیا ہونےوالا ہےاس کےبارےمیں سوچ کر ہر فرد دہشت زدہ تھا ۔
کچھ دِنوں قبل جو کچھ ان کےگھروں میں ، ان کےمحلوں میں ان کےساتھ ہوا تھا اب ایسا محسوس ہورہا تھا ‘ وہی سب کچھ اِس ریلیف کیمپ میں بھی ان کےساتھ ہونےوالا ہے۔ جہاں وہ دو ماہ سےاپنےآپ کو محفوظ محسوس کر رہےتھے۔
” لگتا ہےشرپسندوں نےکیمپ پر حملہ کردیا ہے۔ اگر اِنھیں روکا نہیں گیا تو وہ اندر گھس آئیں گےاور وہی سب کچھ ہوگا جو ہمارےساتھ ہوا ہے۔ “
انھیں روکنا چاہیئے۔ “

” آو

¿ آگےبڑھو ۔ “
کیمپ کےپناہ گزینوں نےآپس میں رائےمشورہ کیا اور پھر وہ کیمپ کےدروازےکی طرف بڑھے۔ باہر اندھیرےمیں شرپسند نعرےبازی کررہےتھے، پتھراو

¿ کر رہےتھے، پتھر کیمپ میں آ آکر گر رہےتھےجس سےدوچار لوگ زخمی بھی ہوئے
” جواب دیا جائےنعرہ

¿ تکبیر اللہ اکبر ۔ “ ؟
کسی نےنعرہ بلند کیا اور فوراً جواباً پتھر چلائےجانےلگے۔
ایک منٹ بعد ہی نعرےبھی بند ہوگئےاور پتھراو

¿ بھی رُک گیا ۔ حملہ آوار بھاگ کھڑےہوئےتھے۔
لیکن اس کیمپ کےمکین ایک لمحہ کےلئےبھی سو نہیں سکےتھے، ایک خوف چھایا ہوا تھا ،حملہ دوبارہ ہوسکتا ہے، اس سےبہتر ہےجاگا جائے۔
وہ رات بھر جاگتےرہے۔
سورج کےنکلنےکےساتھ خوف کا احساس کچھ کم ہوا ۔
لیکن پورےکیمپ پر تناو

¿ چھایا رہا ۔
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ کیمپ پر شرپسندوں نےحملہ کیاہےاور شرپسندوں کو روکنےکےلئےایک سپاہی بھی وہاں موجود نہیں تھا ۔
میڈیا کےلوگ پہونچ گئی اور اِس سلسلےمیں ریلیف کمیپ میں مقیم مکینوں سےبات چیت کرنےلگےاور ان کےبیانات کی بنیاد پر خبریں تیّار کرکےاپنےاپنےچینل اور اخبارات کو روانہ کرنےلگے۔
برسرِ اقتدار پارٹی کےایک دو لیڈر بھی آئےاور اُنھوں نےوہی بیانات دئےجس کی اُن سےتوقع تھی یا جو اُن کی فطرت میں رچا بسا تھا ۔
” کیمپ میں پناہ گزینوں کی آڑ میں ملک دُشمن ، غنڈےعناصر جمع ہیں اور وہی ہمارےلیڈران ، حکومت ، پارٹی ، تنظیم کو بدنام کرنےکےلئےاِس طرح کی حرکتیں کر رہےہیں ۔ ان غنڈوں نےکیمپ سےگذرنےوالےہمارےپارٹی ورکروں پر پتھراو

¿ کیا تھا جواب میں اُنھوں نےبھی پتھراو

¿ کیا اور نعرےلگائےاس کےعلاوہ کوئی بات نہیں ہےجس کا بتنگڑ بنایا جارہا ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہےکہ ان ملک دُشمن عناصر ، آئی ۔ ایس ۔ آئی کےایجنٹوں کو ان کیمپوں سےنکالا جائے۔ ورنہ بار بار گودھرا جیسےواقعات ہوتےرہیں گے۔“
اپوزیشن لیڈران نےبیانات دئے۔
” اب تک ہوئےفسادات ، ان میں پیش آنےوالےتمام گھناو

¿نےواقعات میں برسرِ اقتدار پارٹی کا ہاتھ ہے‘ یہ تو ہم کہتےہیں آج اِس کا ثبوت بھی مل گیا ہے۔ اتنےبڑےکیمپ میں جہاں ہزاروں لوگ بےیار و مددگار پڑےہیں ان کی حفاظت کےلئےمرکزی اورریاستی حکومت کےپاس ایک سپاہی بھی نہیں ہے۔ ان کےورکر آکر اس کیمپ پر حملہ کرتےہیں یہ ایک گھناو

¿نی سازش کا آغاز ہے۔“
باز آباد کاری کےوزیر نےکیمپ کا دورہ کیا ۔ دورےکےنام پر وہ کیمپ کےدروازےکےاندر بھی داخل نہیں ہوا لیکن اس نےبیان دےدیا ۔
” ریلیف کیمپ پر حملےسےیہ ثابت ہوتا ہےکہ اس قسم کےحملہ مستقبل میں بھی ہوسکتےہیں اور آئندہ اِس طرح کےحملوں میں سیکڑوں لوگوں کی جانیں جاسکتی ہیں ۔ حکومت اتنےلوگوں کی جانوں کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لےسکتی ۔ کوئی بہت بڑا واقعہ ہو اس سےبہتر تو یہ ہےکہ اس طرح کےتمام کمیپوں کو بند کردیا جائےتاکہ کیمپوں میں مکین پناہ گزین اپنےاپنےگھروں کو واپس چلےجائیں ۔ “
وزیر کےاِس بیان کےبعد دوچار تٹ پونجئےلیڈروں نےاس کےحق میں بیان دئے۔
کچھ دِنوں قبل ہی اپنی گورو یاترا میں خود ریاست کا سی ۔ ایم اِس طرح کےکیمپوں کو آبادی بڑھانےوالےکارخانےقرار دےچکا تھا ۔
اور اب باز آباد کاری کا وزیر ان کیمپوں کو بدامنی کا خطرہ قرار دےکر بند کرنےکی سفارش کرنےکی بات کر رہا ہے۔
اس بات کو سن کر ریلیف کیمپوں کا ہر فرد دہل گیا ۔
” ہم کو ان ریلیف کیمپوں میں کوئی بھی سرکاری سہولت دستیاب نہیں ہے، ہم کو ٹھیک سےپینےکےلئےپانی تک نہیں دیا جاتا ہے۔ہفتےمیں ایک بار بھی سرکاری کھانا نہیں دیا جاتا ہے، کیمپ کی صفائی بھی نہیں ہوتی ہےاور اب ان کیمپوں اور ان میں مکین پناہ گزینوں کو ملک دُشمن قرار دےکر ان کو بند کرنےکی آواز اُٹھائی جارہی ہے۔ “
” ایسا لگتا ہےجیسےہماری مکمل طور پر بیخ کنی اور نسل کشی کرنےکا مکمل جامع منصوبہ بنالیا گیا ہےاور اس پر سختی سےعمل درآمد کیا جارہا ہے۔ ایک سوچی سمجھی سازش کےتحت پوری سرکاری مشنری کا استعمال کرکےہمیں ہمارےگھروں سےبےگھر کیا گیا ۔ ہمارےعزیز و اقارب کو زندہ جلایا گیا ، ہزاروں لوگوں کو موت کےگھاٹ اُتارا گیا ہے، سوچےسمجھےمنصوبوں کےتحت ہزاروں کی تعداد میں بھیڑ نےہمارےگھر ، محلوں پر حملہ کرکےانہیں نیست و نابود کیا ۔ اور ان سےبچ کر پناہ لینےکےلئےہم بےیار و مددگار ان کیمپوں میں آئےتو ان پر بھی زبانی اور جسمانی حملےکئےجارہےہیں ۔ ریاست کا سی ۔ ایم ہم لوگوں سےکوئی ہمدردی جتانےکےبجائےان کیمپوں کو آبادی بڑھانےکےکارخانےقرار دےکر اسےبند کرنےکی بات کرتا ہے، شرپسند دندناتےاس پر حملہ کرکےچلےجاتےہیں ۔ اور انتظامیہ آنکھ موندےکھڑا رہتا ہے۔ “

” ہم یہاں کسی حد تک محفوظ ہیں ۔ شرپسندوں کےگھناو

¿نےمنصوبوں کا شکار ہونےسےبچ گئےہیں ۔ اس لئےہمیں یہاں سےنکال کر دوبارہ اپنےگھروں کو بھیجنےکی گھناو

¿نی سازش رچی جارہی ہے۔ تاکہ شرپسند دوبارہ ان کےاِرادوں میں کامیاب ہوجائیں اور پھر ہم کو ختم کردیا جائے۔“
یہ سوچ کر ایک دہشت سی ہر کسی کےدِل پر چھا گئی ۔
اِس کیمپ میں ان کےپاس کچھ بھی نہیں تھا ۔ نہ تو بچھانے، اوڑھنےکےلئےٹھیک طور سےبستر تھےنہ ان کو دو وقت کا صحیح طور پر کھانا مل پاتا تھا ، نہ ہی پانی پینےکےلئےوقت پر مل پاتا تھا ۔
لیکن پھر بھی وہ اس کیمپ میں خوش تھے۔
اُنھیں وہاں کسی طرح کا خوف اور دہشت نہیں تھی ۔
کیمپ کےاِحاطےمیں ان کا دِن بھی آرام سےگذر جاتا تھا اور رات کو بھی سکون سےبےسر و سامانی کےباوجود سوتےتھے۔
اُنھیں وہاں کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوتا تھا ۔
جب وہ ان دِنوں کو یاد کرتےتھےجب وہ اپنےگھروں میں تھےتو اُن کی رُوح کانپ اُٹھتی تھی
جو تباہی اور بربادی اُنھوں نےدیکھی تھی جو ظلم و ستم اُنھوں نےسہےتھےاس کےبعد تو وہ اُس جگہ دوبارہ جانےکا تصور بھی نہیں کرسکتےتھے۔ اس کیمپ میں مقیم ہر فرد نےاپنا گھر ، زمین ، جائداد تو کھوئی تھی ‘ اپنےبال بچے، بیوی ، عزیز اور اقارب کو بھی کھویا تھا ۔
شوہر بچ گیا تو بیوی کو ہوس کا نشانہ بناکر زندہ جلا دیا گیا ۔
کوئی عورت بچ گئی تو اُس کی آنکھوں کےسامنےاُس کےشوہر، اُس کےبچوں کو ترشولوں سےچھید کر اور قتل کرکےدہکتی آگ میں ڈال دیا گیا ۔
بوڑھے، بچے، جوان کسی کو بھی نہیں بخشا گیا ۔
وہ اپنا کیا دفاع کرپاتے۔
ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان پر ان کےگھروں ، محلوں پر ٹوٹ پڑےتھے۔ جیسےایک ساتھ ہزاروں وحشی درندےگلوں سےنکل آئےہوں ، کوئی بھی تو ان کی مدد کرنےوالا نہیں تھا ۔
انتظامیہ خاموش تماشائی بنی تماشہ دیکھ رہی تھی یا اپنی خاموشی کےہتھیار سےاپنی وحشیانہ حرکتیں جاری رکھنےاور بربریت کا اور زیادہ مظاہرہ کرنےکےلئےاُکسا رہی تھی۔
اب تک یہ ہوا تھا کہ جب کبھی اس طرح کےواقعات ہوتےتھےان کےپڑوسی ان کا ساتھ دیتےتھے۔ ان کی حفاظت کرتےتھےیا متوقع خطرےسےآگاہ کردیتےتھےتاکہ وہ خود کو اس ممکنہ خطرےکا مقابلہ کرنےکےلئےپوری طور پر تیّار کرلیں ۔
لیکن اس بار اس کےبالکل برخلاف ہوا تھا ۔
اس بار ان پر حملہ کرنےوالوں میں ان کےپڑوسی ، ان کےمحلےوالےپیش پیش تھے۔
حملہ آور دوسرےمحلوں یا شہر سےنہیں آئےتھے۔ اس کےبعد کیا کسی سےتوقع کی جاسکتی تھی ۔
جو کچھ لٹ گیا تھا اسےلٹا کر ، جو ختم ہوگیا اس پر صبر کرکےآنسو بہاتےوہ اس کیمپ میں آئےتھے
اس کیمپ میں پہونچنےوالا کوئی بھی فرد تندرست نہیں تھا ، ہر کوئی فساد اور فسادیوں کےدئےزخموں سےچور تھا ۔
اس کیمپ میں ان کےزخموں کا علاج کرنےکےلئےنہ تو کوئی معالج تھا نہ ہی دوائیں ۔
لیکن پھر بھی وہ مطمئن تھے۔
ایک دُوسرےکےزخموں کو پیارسےسہلادیتے، پھٹےکپڑوں کی پٹیاں باندھ دیتےیاباتوں کا مرہم رکھ دیتےتو زخموں سےاُٹھنےوالی درد کی ٹیس کچھ کم ہونےلگتی ۔
مہینوں ہوگئےتھے۔ نہ تو فساد رُکتا تھا اور نہ امن کی کرن کہیں سےپھوٹتی تھی ۔ ایک دو دِن سکون سےجاتےاور پھر کسی علاقےمیں فساد پھوٹ پڑتا اور پھر وہاں وہی واقعات دہرائےجاتےجو پورےفساد کےدوران دہرائےگئےتھے۔
وہ واپس اپنےگھروں کو جانےکی سوچتےبھی نہیں تھے۔
کرفیو چھوٹنےکےبعد کوئی جیالا جاکر اپنا گھر اور محلہ دیکھ آنےکی ہمت کرتا تو واپسی میں وہ اتنا ڈرا اور سہما ہوا ہوتا تھا کہ دوبارہ پھر وہاں جانےکا نام بھی نہیں لیتا تھا ۔
اپنےمحلےمیں قدم رکھتےہی ہزاروں آنکھیں اُنھیں گھورنےلگتیں ۔
ان آنکھوں میں نفرت ہوتی ‘ وہ اُسےدیکھ کر آپس میں زور زور سےباتیں کرتے
” یہ سالا حرامی کیسےبچ گیا ۔ “
” ہمارےترشولوں کا وار ذرا ہلکا تھا ، ہم نےغلطی کی اسےٹرین کی طرح جلانا چاہیئےتھا ۔ “
” دوبارہ واپس آیا ہے، دبوچ سالےکو ، بچ کر جانےنہ پائے، کسی کو پتا بھی نہیں چلےگا ۔ “
اس کےپاس پڑوس کےلوگ اُسےدیکھ کر اس سےایسی باتیں کرتےتھے۔ اسےدیکھ کر کوئی ہمدردی جتانےوالا یا ہمدردی کےدوبول بولنےوالا کوئی بھی نہیں تھا ۔
اس کےبعد تو وہ وہاں سےنکل کر اس ریلیف کیمپ میں پہونچ جانےمیں ہی عافیت سمجھتا ۔
اسےلگتا ، اگر وہ یہاں آیا تو اب کی بار بچ نہیں پائےگا ۔
قاتل ، وحشی ، خونی درندےآزاد ہیں ، اپنی درندگی پر وہ پشیمان نہیں ہے۔ ان کی درندگی کچھ اور بڑھ گئی ہے۔ وہ اسےدِن دھاڑےسرِ عام بھی ختم کرسکتےہیں ، اگر وہ دِن میں بچ بھی گیا تو رات کو ہزاروں وحشیوں کےحملےمیں تو بچ ہی نہیں سکتا ۔
اس لئےاپنےگھر جاکر کیا فائدہ ؟

 

اس کیمپ میں لاکھوں لوگ تھے۔ لُٹےہوئے، تباہ و برباد ، زخموں سےچور لوگ
لیکن یہاں ان کی جانوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا ۔
فسادی اور وحشی درندےیہاں پر ان پر حملہ نہیں کرسکتےتھے۔ کیونکہ یہاں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ حملہ آوروں کی بڑی سےبڑی فوج کا وہ آسانی سےمقابلہ کرکےاپنی جانیں بچا سکتےہیں ۔
لیکن ان واقعات نےاُنھیں دہلا کر رکھ دیا تھا ۔
جس طرح کیمپ پر حملہ کرنےکی کوشش یا نعرےبازی ہوتی تھی ‘ اس سےاُنھیں محسوس ہونےلگا تھا ‘ وحشی فسادی اُنھیں یہاں بھی سکون سےرہنےدینا نہیں چاہتےہیں ۔
اور خود ان کا سردار ریاست کا سی ایم ایسےکیمپوں کو آبادی بڑھانےوالےکارخانےکہہ رہا تھا ۔
جس وزیر کےذمہ ان کی باز آباد کاری تھی وہ ان کی باز آباد ی کا کام تو نہیں کر رہا تھا ۔ یہاں جس ٹوٹی چھت کےنیچےوہ پناہ لئےہوئےتھےاُسی ٹوٹی چھت کو بھی ان کےسروں سےچھینّےکی کوشش کررہا تھا اور کہہ رہا تھا ۔
اتنےبڑےلوگوں کی جانوں کی حفاظت وہ نہیں کرسکتے، اِس طرح کےکیمپ امن کےلئےخطرہ ہیں ۔ اِس لئےان سےامن کی صورتِ حال بگڑ سکتی ہے۔ انہیں بند کردینےمیں ہی بھلائی ہے۔
اور ایک بار پھر بےامانی ، عدم تحفظ کا عفریت ان کو جکڑنےکےلئےاپنےبازو پھیلا رہا تھا ۔
پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی ۔بھیونڈی۔ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)


پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔٢٠٣١٢٤
ضلع تھانہ (مہاراشٹر)






































 

 








 

 

 

 

 Contact:-

M.Mubin

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421 302

Dist. Thane ( Maharashtra)

Mobile:-09372436628

Email:-mmubin123@gmail.com