افسانہ         اذان          از:۔ایم مبین

 



شاید وہ رات کا آخری پہر ہوگا ۔ معمول کےمطابق آنکھ کھل گئی تھی۔ اُس نےاندازہ لگایا ‘ شاید ٤ بج رہےہوں گے۔ آج آنکھ معمول سےکچھ پہلےہی کھل گئی ہے۔
اب آنکھ بند کرکےلیٹےرہنا بھی لاحاصل تھا ۔ نیند تو آنےسےرہی ۔ صبح تک کروٹیں بدلنےسےبہتر ہےکہ باہر آنگن میں بیٹھ کر صبح کی ٹھنڈی ہواو

¿ں کےجھونکوں سےلُطف اندوز ہوا جائے۔ اُس نےبستر چھوڑا اور گھر کےباہر آیا ۔
چاروں طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی ۔ گھر کےباہر بندھےجانوروں نےتاریکی میں بھی اُس کی آہٹ سُن لی یا شاید اُنھوں نےاُس کی مانوس بُو سونگھ لی ہو ۔ وہ اپنی اپنی زُبانوں میں اُسےآوازیں دےکر اپنی موجودگی کا احساس دِلانےلگے۔
” اچھا بابا ! مجھےپتہ ہےتم لوگ جاگ رہےہو ‘ آتا ہوں ۔ “ کہتا وہ مویشی خانےکےپاس آیا ۔ اُسےدیکھ کر گائےنےمنہ سےآواز نکالی ۔
” اب چپ بھی ہوجا ۔“ اُس نےگائےکی پیٹھ تھپتھپائی تو وہ زُبان نکال کر اُس کا ہاتھ چاٹنےلگی۔ اُس کےبعد بھینس ، بیل ، بکریاں اور بھیڑیں شور مچانےلگے۔
وہ اُن کو آوازیں دیتا چپ رہنےکےلئےکہنےلگا ۔
تھوڑی دیر بعد سب چپ ہوگئےتو وہ آنگن میں رکھی کھاٹ پر آکر بیٹھ گیا اور تمباکو نکال کر چلم بھرنےلگا ۔
چلم کا ایک کش لےکر اُس نےدُور گاو

¿ں کی طرف ایک نظر ڈالی ۔ اندھیرےمیں ڈوبا گاو

¿ں اُسےکسی آسیبی حویلی کی طرح دِکھائی دےرہا تھا ۔وقت دھیرےدھیرےسرک رہا تھا اور اُفق پر ہلکی ہلکی سُرخی نمودار ہورہی تھی ۔لیکن ماحول پر سکوت کا وہی عالم تھا ۔ اُس کےکان اُس سکوت کو توڑنےوالی ایک آواز کےمنتظر تھے۔
اُس سکوت کو سب سےپہلےتوڑنےوالی اللہ بخش کی اذان کی آواز ۔
لیکن اُفق پر پَو پھٹ گئی ۔ ہنومان ، وِشنو ، جلرام ، شنکر کےمندروں کی گھنٹیاں بجنےلگیں ۔ ساتھ بجنےوالی تمام منادر کی گھنٹیوں سےایک بےہنگم شور نےسنّاٹےکےسینےکو درہم برہم کردیا ۔
اور پھر وہ بھی خاموش ہوگئے۔
لیکن اللہ بخش کی آواز نہ تو فضا میں اُبھری اور نہ اُسےاللہ بخش کی اذان کی آواز سنائی دی ۔
ایک لمبی سانس لےکر اُس نےاپنےسر کو جھٹک دیا ۔
وہ بھی کتنا بےوقوف ہے۔
وہ اچھی طرح جانتا ہےکہ اللہ بخش اپنےبچےہوئےخاندان کےساتھ اُس گاو

¿ں کو چھوڑ کر جاچکا ہے۔ جس مسجد کےآنگن سےوہ اذان دیتا تھا وہ مسجد اب کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اُس کےاندر اب ہنومان کی مورتی رکھی ہوئی ہی۔پھر بھلا اُسےاللہ بخش کی اذان کی آواز کس طرح سُنائی دےسکتی ہے۔
اب تو اللہ بخش کو گاو

¿ں چھوڑےمہینوں ہوگئےہیں ۔ پھر بھی اُس کےکان اللہ بخش کی اذان کےمنتظر کیوں رہتےہیں ؟
شاید اِس لئےکہ وہ گذشتہ چالیس برسوں سےاللہ بخش کی اذان کی آواز سُن رہا تھا ۔
دِن کےشور میں تو اُسےاللہ بخش کی اذان کی آواز سُنائی نہیں دیتی تھی ۔لیکن فجر میں اور عشاءمیں اُس کی اذان کی آواز ہر کوئی صاف صاف سُن سکتا تھا ۔
اُسےاذان کی آواز سُن کر ایک قلبی سکون ملتا تھا ۔ یہ سوچ کر کہ میری طرح میرا دوست بھی جاگ گیا ہےاور وہ اپنےخدا کی عبادت میں لگا ہےاور عبادت میں شریک ہونےکےلئےدُوسرےبندوں کوپکار رہا ہے۔
چالیس سالوں میں ایسےبہت کم مواقع آئےتھےجب اُس نےاللہ بخش کی اذان نہ سُنی ہو ۔اِن مواقعوں میں وہ دِن تھےجب وہ کسی کام سےگاو

¿ں سےباہر گیا ہو یا پھر اللہ بخش کسی کام سےباہر گیا ہوگا ۔
چالیس سالوں سےوہ اذان کی آواز سُن رہا تھا ۔ لیکن گذشتہ ٠٦ سالوں سےوہ اللہ بخش کو جانتا تھا ۔ایسا کوئی بھی دِن نہیں گذرا تھا جب اُس کا اور اللہ بخش کا سامنا نہیں ہوا ہو یا بات چیت نہ ہوئی ہو یا دونوں نےمل کر ساتھ تمباکو نہ پی ہو ۔
لیکن وہی اللہ بخش ایک دِن اُسے، اِس گاو

¿ں کو چھوڑ کر چلا گیا ‘ جس میں وہ پیدا ہوا تھا ، پلا بڑھا تھا ، جہاں اُس کا گھر تھا ، کھیت تھے، مسجد تھی ۔ جسےاُس نےاپنےہاتھوں سےبنایا تھا ۔
اور وہ جاتےہوئےاُسےروک نہیں سکا تھا ۔
اُس میں اللہ بخش کو روکنےکی ہمّت بھی نہیں تھی ۔ وہ کس منہ سےاُس سےکہتا ۔
” اللہ بخش اِس گاو

¿ں کو چھوڑ کر مت جاو

¿ ! یہ گاو

¿ں تمہارا ہے، تم یہیں پیدا ہوئےہو ۔ ہم ساتھ کھیلےہیں ، بڑےہوئےہیں ، یہاں تمہاری اولادیں پیدا ہوئی ہیں ، اِس گاو

¿ں کےقبرستان میں تمہارےماں باپ اور کئی رشتہ دار دفن ہیں ۔ اِس گاو

¿ں کو چھوڑ کر مت جاو

¿ ۔ “
اُسےپتا تھا کہ اگر وہ ایسا کہتا تو اللہ بخش کا ایک ہی جواب ہوتا ۔
” رام بھائی ! اِس گاو

¿ں نےمیرا جوان بیٹا چھین لیا، میرا دُوسرا بیٹا اپاہج ہوگیا ، میری بہو کی طرف ناپاک ہاتھ بڑھے‘ لیکن میری بہو نےاُن ناپاک ہاتھوں کو اپنےجسم کا لمس دینےسےقبل اپنی جان دےدی ،اِس گاو

¿ں میں میری بیٹیوں کی عصمت تار ، تار ہونےہی والی تھی ‘ خدا نےکسی طرح اُنھیں بچا لیا ، میرےاس کھیت کو جلا کر راکھ کردیا گیا جو چار مہینےتک اپنےخون سےسینچ ، سینچ کر میں نےلہلہائے۔ اِس گاو

¿ں میں میرےپیار کےشِوالے، میرےگھر کو توڑدیا تھا ، مسجد کو کھنڈر بنا کر اُس میں ہنومان کی مورتیاں رکھ دی گئیں ۔ اب آگےاِس بات کی کیا گیارنٹی ہےکہ میرےکسی بیٹےکی جان لینےکی کوشش نہیں کی جائےگی ، میری بیٹیوں کی طرف ہوسناک نظریں نہیں اُٹھیں گی ۔ میری عبادت گاہ مسمار نہیں کی جائےگی ؟ “
اللہ بخش کی اِس بات کا کسی کےپاس جواب نہیں تھا ۔
اُس کی آنکھوں کےسامنےسب کچھ ہوا تھا ۔ مسجد توڑی گئی تھی اور اُس میںہنومان کی مورتیاں رکھی گئی تھیں ، اُس کےکھیت اور گھر جلائےگئےتھے، اُس کےبیٹوں کو ترشولوں سےوار کرکےمارا گیا تھا ۔

اُس کی بہو ، بیٹیوں کی طرف ہوسناک ہاتھ بڑھےتھے۔
وہ چپ چاپ تماشہ دیکھتا رہا تھا ۔
کسی کو روک نہیں سکا تھا ۔ گاو

¿ں کےکسی بھی فرد نےان بلوائیوںکو روکنےکی کوشش نہیں کی تھی ۔
جن لوگوں نےیہ سب کچھ کیا وہ سب اِس کےاپنےتھے، اِسی گاو

¿ں کےلوگ ‘ جو اِس گاو

¿ں میں پل کر جوان ہوئےتھے، وہ اللہ بخش کی گود میں کھیلےتھے، اُس کےکھیتوں سےآم چرا کر اُنھوں نےکھائےتھے۔
جسےوہ اللہ بخش چاچا کہتےتھے، اُن ہی لوگوں نےاُس کےخاندان کےساتھ یہ سب کیا تھا ۔
وہ اور اُس کےجیسےسیکڑوں لوگ تماشہ دیکھتےرہےتھےاور اللہ بخش کو پُرسہ دینے، اپنی دوستی ، تعلقات کا یقین دِلانےکےلئےاُس وقت پہنچےتھےجب اُس کا سب کچھ لُٹ گیا تھا ۔
جس وقت وحشیت کا یہ ننگا ناچ ہوا تھا ‘ اُس وقت اللہ بخش گاو

¿ں میں نہیں تھا ۔
وہ کسی کام سےشہر گیا تھا ۔ جب وہ شہر سےلوٹا تو سب کچھ برباد ہوگیا تھا ۔
اگر اللہ بخش گاو

¿ں میںہوتا اور اُس کےسامنےیہ سب کچھ ہوتا تو وہ شاید زندہ نہیں رہتا ۔
یا تو وہ اُس کےبڑےبیٹےکی طرح ماردیا جاتا یا پھر یہ سب اپنی آنکھوں سےدیکھنےکےبعد خودمرجاتا ۔
اِس کےبعد وہ گاو

¿ں میں نہیں رہ سکا ، اُسےاپنےزخمی خاندان کو لےکر شہر سےجانا پڑا ۔
شہر سےآنےکےبعد تو اُس کا گاو

¿ں میں رہنا اور بھی مشکل ہوگیا ۔ اُسےدھمکیاں ملنےلگیں ۔ گاو

¿ں چھوڑ کر چلےجاو

¿ ورنہ گذشتہ بار جو نہیں ہوا اِس بار وہ ہوگا ۔ اِس بار کوئی نہیں بچ پائےگا ۔
اِس گاو

¿ں میں پیدا ہوئے، پلے، بڑھےاللہ بخش کےہزاروں دوست ، شناسا تھے، ہر کوئی اُسےجانتا تھا ، ہر کسی کےاُس کےساتھ تعلقات تھے۔
سب اللہ بخش کو تسلّی دینےگئےتھے۔
” جو ہوا بہت برا ہوا ۔ “
” اگر وہ برا ہورہا تھا تو آپ لوگوں نےاُسےروکا کیوں نہیں ؟ “
اللہ بخش جب اُن سےسوال کرتا تو سب لاجواب ہوجاتے۔
اِس لئےجب اُس نےاپنےخاندان کےساتھ گاو

¿ں چھوڑنےکا فیصلہ کیا تو چند ہی لوگوں نےاُسےروکنےکی کوشش کی ۔
” میں مانتا ہوں ، لیکن جو دھمکیاں مجھےروزانہ مل رہی ہیں ‘ اُن کا کیا ہوگا ؟ اِس بات کی کیا ضمانت ہےکہ جو کچھ میرےخاندان کےساتھ ہوا دوبارہ نہیں ہوگا ،ہم اِس گاو

¿ں میں پہلےہی کی طرح محفوظ رہیں گے؟ “
لیکن اِس بات کی کوئی بھی ضمانت نہیں دےسکا ۔
” وہ بچےہیں اور بہک گئےہیں ، اِس طرح بہک گئےہیں یا بہکا دئےگئےہیں کہ اُن کو راہ پر لانا ناممکن ہےاور تم تو جانتےہو ؟ آج کل کےنوجوان کسی کی نہیں سنتےہیں ۔ “ اللہ بخش کو جواب ملتا ۔
” تو اِس کا مطلب یہی ہےکہ مجھےاپنےخاندان والوں کےساتھ یہ گاو

¿ں چھوڑنا پڑےگا ۔ تمہارےبچےنہیں چاہتےہیں کہ ہم لوگ اِس گاو

¿ں میں رہیں ‘ جو میرا اپنا گاو

¿ں ہے۔ تم میں اپنےبچوں کو روکنےکی طاقت نہیں ہے‘ اِس کا مطلب بھی صاف ہےکہ تم بھی اپنےبچوں کےجرم میں برابر کےشریک ہو ۔ تو ٹھیک ہے‘ اب میں کوئی خطرہ نہیں لینا چاہتا ۔ مجھےاور میرےخاندان کو کہیں نہ کہیں تو پناہ مل ہی جائےگی ۔ اللہ کی زمین بہت بڑی ہے۔ “
جس دِن اللہ بخش کا خاندان گاو

¿ں چھوڑ کر گیا ‘ اُسےاور اُس کےجیسےچند لوگوں کو بہت دُکھ ہوا ، لیکن گاو

¿ں میں جشن منایا گیا ۔ اللہ بخش کےگھر کی اینٹوں کو تو ڑ ، توڑ کر ، مسجد کو توڑ کر اپنی کامیابی ، فتح پر رقص کیا گیا ۔ اللہ بخش کےکھیت پر قبضہ کرکےاُس کےحصّےبخرےکئےگئے۔
وہ چلا گیا ‘ لیکن اُس کےجانےکےساتھ اُس سےوابستہ سالوں کی یادیں نہیں جاسکیں ۔
وہ اللہ بخش جس کےساتھ بچپن سےوہ کھیلتا ، کودتا آیا تھا ۔
جو اُس کےساتھ ساتھ گاو

¿ں کی اسکول میں پڑھا تھا ۔
جس کےساتھ وہ گاو

¿ں ، کھیت سےوابستہ ہر مسئلےپر بحث کرتا تھا اور اللہ بخش کےنیک مشورےقبول کرتا تھا ۔
عید ، بقر عید کےدِن وہ جس اللہ بخش کےگھر شیر خرمہ کھانےجاتا تھا ، محرم کےایّام میں شربت اور کھچڑا کھانےجاتا تھا ، دیوالی ، نوراتری پر جس کو وہ اپنےگھر بلاتا تھا ۔
نوراتری کےتہوار پر جب اللہ بخش کاٹھیا واڑی لباس پہن کر ڈانڈیا کھیلتا تو کوئی اُسےپہچان نہیں پاتا تھا کہ اللہ بخش ہے‘ جو مسلمان ہے، گاو

¿ں کی اکلوتی مسجد کا مو

¿ذّن ہے، پیش اِمام ہے، گاو

¿ں کےمسلمان بچوں کو عربی کی تعلیم دیتا ہےاور اُنھیں دین کی باتیں بتاتا ، سکھاتا ہے۔
سویرےجاگنےکےبعد اللہ بخش کی اذان کی آواز اُسےبہت بھلی لگتی تھی ۔ رات میں جب تک اذان کی آواز اُس کےکانوں میں نہیںپڑتی تھی تب تک اُسےمیٹھی گہری نیند نہیں آتی تھی ۔
ایک دِن اُس نےاللہ بخش سےپوچھا تھا ۔
” بھائی اللہ بخش ! تم اِس اذان میں کیا پکارتےہو ؟ “
” اِس اذان میں اللہ کی تعریف اور اللہ کی عبادت کےلئےآنےکا بلاوا ہوتا ہے۔ “
اُس کا لڑکا شہر سےٹیپ ریکارڈلےآیا تھا ۔
ایک دِن جب اللہ بخش کسی کام سےاُس کےگھر آیا تو وہ اُس سےبولا ۔
” اللہ بخش ! تم اذان پکارو میں تمہاری اذان کو ٹیپ کرنا چاہتا ہوں ۔ “
” نہیں رام بھائی ! اذان کسی بھی وقت نہیں دی جاتی ‘ اِس کےاوقات مقرر ہیں ۔ اُن ہی اوقات میں اذان دی جاتی ہے۔ “
لیکن جب وہ اللہ بخش سےبہت زیادہ اصرار کرنےلگا کہ وہ اُس کی اذان کو ٹیپ کرنا ہی چاہتا ہےتو اللہ بخش نےاذان دی اور اُس نےاُسےٹیپ کرلی ۔
” میں نےآج تمہارےگھر میں اذان دی ہے۔ دیکھنا اِس اذان کی قوت سےتمہارےگھر میں جو بلائیں ، آسیب ، شیطان ، بھوت ، پریت آتما ہوں گی ؟ بھاگ جائیں گی ۔

اور کچھ دِنوں بعد سچ مچ اُسےمحسوس ہوا کہ اُس کےگھر میں واقعی بہت نمایاں تبدیلی ہوئی ہے۔ جن بلاو

¿ں ، آسیب کا گھیرا اُس کےگھر میں تھا ‘ اللہ بخش کی اذان سےوہ دُور ہوگیا ۔
گذشتہ پچاس سالوں میں کئی بار پورا ملک فسادات میں جھلسا ‘ لیکن اُن کی گرم ہوا کبھی بھی اُن کی

 

چھوٹےسےگاو

¿ں کو نہیں چھو سکی ۔ لیکن وہ گذشتہ چار پانچ سالوں سےبڑی شدّت سےمحسوس کر رہا تھا کہ اُن کی آل اولاد کےخیالات میں بڑی تیزی سےتبدیلی آرہی ہے۔ اُن کی نسل کےلوگ کبھی بھی اللہ بخش اور اُس کےمذہب کےلوگوں کےبارےمیں باتیں نہیں کرتےتھے۔
لیکن یہ نئی نسل اب صرف اللہ بخش اور اُس کےمذہبی بھائیوں کےبارےمیں ہی باتیں کرتےہیں اور اُن کی باتوں میں نفرت کا زہر بھرا ہوتا ہے۔ گاو

¿ں کا ہر چھوٹا بڑا اللہ بخش کی عزت کرتا تھا لیکن یہ چھوٹےموقع ملنےپر بات بات پر اللہ بخش کی توہین کرنےکی کوشش کرتےہیں ‘ اُس سےاور اُس کےخاندان سےاُلجھتےہیں ۔
کبھی کبھی اللہ بخش بڑےدُکھ سےکہتا تھا ۔
” رام بھائی ! کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ گذشتہ پچاس سالوں میں جو میرےیا میرےخاندان کےساتھ اِس گاو

¿ں میں نہیں ہوا ‘ وہ ہورہا ہے۔ “
” چھوٹی چھوٹی باتوں پر دِل کیوں چھوٹا کرتےہو اللہ بخش ! ہم ہیں نا ، یہ سب تو چلتا رہتا ہے۔ “ وہ اُسےسمجھاتا ۔
اور اُس دِن وہ سب کچھ ہوگیا ۔
اچانک ہوا یا پہلےسےطےشدہ تھا ۔ اِس بارےمیں وہ کچھ بھی نہیں جانتا تھا ۔
اور اللہ بخش کو گاو

¿ں چھوڑ کر جانا پڑا ۔
اب گاو

¿ں میں صرف اللہ بخش کی یادیں اور اُس کی کھنڈر سی نشانیاں ہیں۔ اُس کا ٹوٹا ہوا گھر ، جلی ہوئی مسجد جس میں ہنومان کی مورتیاں رکھی ہیں ۔ کھیتی جس پر پتہ نہیں کتنےلوگوں کا قبضہ ہے۔
جنھوں نےیہ سب کیا تھا کیا شاید وہ بھول بھی گئےہوں گے؟
لیکن وہ اُسےنہیں بھول سکا ۔
اُسےبار بار یہ محسوس ہوتا ہےاللہ بخش جیسےاُس کی رگ ، رگ میں بسا ہوا ہے۔ اُسےاللہ بخش کی ایک ایک بات یاد آتی ہے۔ اللہ بخش کےساتھ گذارا ایک ایک لمحہ یاد آتا ہے۔ اُسےہر جگہ اللہ بخش کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ پتا نہیں اُن لوگوں کواللہ بخش کی کمی محسوس ہوتی بھی ہےیا نہیں ‘ جنھوں نےاُسےگاو

¿ں چھوڑنےپرمجبور کیا تھا ۔ اُسےگاو

¿ں چھوڑنےپر مجبور کرکےپتا نہیں اُن کےکس جذبہ

¿ اَنا کو تسکین ملی ؟
وہ روزانہ جاگتا ہےتو اُس کےکان اللہ بخش کی اذان سننےکےلئےبیتاب رہتےہیں ۔ اُسےپتا تھا کہ اللہ بخش کی اذان کی آواز سنائی نہیں دےگی۔کیونکہ اللہ بخش یا کوئی اور میاں بخش اِس گاو

¿ں میں نہیں رہتا ہے۔ پھر بھی اُس کےکان اذان کی آواز سننا چاہتےتھے۔
اُسےاللہ بخش کی اذان سن کر ایک ذہنی سکون ملتا تھا ۔
لیکن اب اُسےوہ آواز سنائی نہیں دیتی ہےتو دِن بھر ایک بےچینی کا شکار رہتا ہے۔
جب اُس کی بےچینی حد سےزیادہ بڑھ جاتی ہےتو وہ ٹیپ ریکارڈ کےپاس جاتا اور اُس میں وہ کیسیٹ لگاتا جس میں اُس نےایک دِن اللہ بخش کی اذان ٹیپ کی تھی ۔
اور جب وہ پورےوالیوم میں اللہ بخش کی اذان سنتا تو اُس کےدِل کو بڑا سکون ملتا تھا ۔
حی یا علی الفلاح ‘ حی یا علی الفلاح

٭٭٭٭

 

 



پتہ:۔

ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔٢٠ ٣١٢٤
ضلع تھانہ(مہاراشٹر)











 

 

 

 

 Contact:-

M.Mubin

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421 302

Dist. Thane ( Maharashtra)

Mobile:-09372436628

Email:-mmubin123@gmail.com